Header Ads Widget

Responsive Advertisement

سائفر کیس، بظاہر کوئی بدنیتی نہیں، جیل ٹرائل سیکورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

 

سائفر کیس، بظاہر کوئی بدنیتی نہیں، جیل ٹرائل سیکورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

سائفر کیس، بظاہر کوئی بدنیتی نہیں، جیل ٹرائل سیکورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ
سائفر کیس، بظاہر کوئی بدنیتی نہیں، جیل ٹرائل سیکورٹی کے مدنظر چیئرمین پی ٹی آئی کے حق میں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد (ایجنسیاں) اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹاتے ہوئے ٹرائل کورٹ سے رجوع کرنے کی ہدایت کی ہے جبکہ فیصلے میں لکھا ہے کہ سیکورٹی کے پیش نظر جیل ٹرائل سابق وزیر اعظم کے حق میں ہے، جبکہ سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف ٹرائل روکنے اور اخراج مقدمہ کی درخواستیں یکجا کردیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی ہے۔فیصلے میں لکھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی خود اپنی سیکورٹی کے حوالے سے متعدد بار خدشات کا اظہار کر چکے ہیں، بظاہر جیل ٹرائل کے معاملے پر کوئی بد نیتی نظر نہیں آئی، جیل ٹرائل پر تحفظات ہوں تو پٹیشنر ٹرائل کورٹ سے رجوع کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے چین سمجھنی ہے کہ کس طرح سائفرآتا ہے کس طرح جاتا ہے، حکومت اور ریاست کو ہم نے گڈمڈ کر دیا ہے، چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کیخلاف درخواست دائر کی تھی۔سردار لطیف کھوسہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ سابق وزیراعظم اس ملک کے چیف ایگزیکٹو تھے اور چیف ایگزیکٹو کو اس کا حلف ایسی صورتحال میں اختیار دیتا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کھوسہ صاحب یہ بتائیں کہ پاکستان میں امریکا کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائیڈ کرنے کا کوئی قانون موجود ہے؟ لطیف کھوسہ نے بتایا کہ اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائیڈ کر دیا تھا، یہ سائفر امریکا میں سفیر اسد مجید نے دفتر خارجہ کو بھجوایا تھا، ڈونلڈلو نے اس ملک کے وزیراعظم کو ہٹانے کے لیے دھمکی دی، یہ تسلیم شدہ ہے یہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت تھی۔ پاکستان نے امریکا سے احتجاج کیا اور میں نے جب یہ کیس دیکھا تو حیران رہ گیا۔انہوں نے وزیر اعظم کا حلف نامہ عدالت کے سامنے پڑھا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں وہ جو درست سمجھتا ہے تو وہ اس کو ڈسکلوز کر سکتا ہے؟۔انہوں نے کہا کہ جی بالکل وزیراعظم جو درست سمجھتا ہے وہ ڈسکلوز کر سکتا ہے، پی ڈی ایم غلام رہنا چاہتی ہے تو رہے یہ ان کا سیاسی ہتھیار ہے۔عدالت نےان کو کسی جماعت کا نام لینے سے روک دیا۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی کورٹ میں جنگلے میں لا کر کھڑا کیا گیا تھا، یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئے، ان کو ڈر کس چیز کا ہے کیا خوف ہے وہ سابق وزیراعظم ہیں ان کے حقوق ہیں، یہ اعظم خان کا بیان لیکر آگئے ہیں جو تین ہفتے لاپتہ رہا، یہ کہنا کہ سابق وزیر اعظم سائفر لے گیا یہ مضحکہ خیز ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور ریاست کو ہم نے گڈ مڈ کر دیا ہے۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ سائفر کیس میں سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا،چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے نہ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نہ سیکشن 5 کا؟۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ جی بالکل نہ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نہ سیکشن 5 کا اطلاق ہوتا ہے۔چیف جسٹس نےان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے دلائل میں تین نکات عدالت کے سامنے رکھے ہیں، پہلی بات آپ کہہ رہے ہیں آرٹیکل 248 کا استثنیٰ حاصل ہے، دوسرا پوائنٹ آپ کا یہ ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ اور سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا اور تیسرا پوائنٹ آپ کا یہ ہے کہ وزیر اعظم کی ذمہ داری تھی کہ پبلک کے ساتھ شیئر کرتے۔


Post a Comment

0 Comments