Header Ads Widget

Responsive Advertisement

چیف جسٹس اور جج میں نوک جھونک،سوال سے روکا جائے گا تو یہاں بیٹھنے کا فائدہ؟جسٹس منیب،آپ سوال کر سکتے ہیںلیکن وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں،جسٹس فائز عیسیٰ

چیف جسٹس اور جج میں نوک جھونک،سوال سے روکا جائے گا تو یہاں بیٹھنے کا فائدہ؟جسٹس منیب،آپ سوال کر سکتے ہیںلیکن وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں،جسٹس فائز عیسیٰ

 

چیف جسٹس اور جج میں نوک جھونک،سوال سے روکا جائے گا تو یہاں بیٹھنے کا فائدہ؟جسٹس منیب،آپ سوال کر سکتے ہیںلیکن وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں،جسٹس فائز عیسیٰ

چیف جسٹس اور جج میں نوک جھونک،سوال سے روکا جائے گا تو یہاں بیٹھنے کا فائدہ؟جسٹس منیب،آپ سوال کر سکتے ہیںلیکن وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں،جسٹس فائز عیسیٰ

اسلام آباد عدالت عظمیٰ میں سپریم کورٹ(پریکٹس اینڈ پروسیجر) ایکٹ 2023 کیخلاف دائرآئینی درخواستوں کی سماعت کے دوران ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کے دوران جسٹس عائشہ اے ملک،جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر کی جانب سے مختلف سوالات پوچھنے پرچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے وکیل کے دلائل مکمل کرلینے تک سوالات کرنے سے روکنے پر جسٹس منیب اختر اور چیف جسٹس کے مابین ہونے والی نوک جھونک سے کمرہ عدالت کا ماحول تلخی اختیار کرگیا جبکہ دوران سماعت چیف جسٹس نے آبزرویشن دی کہ چار سماعتوں کے بعد بھی ہماری کارکردگی یہ ہے کہ ایک مقدمہ ہی ختم نہیں ہواہے، ایکٹ سے سپریم کورٹ میں یہ مداخلت بھی ہوئی تو اچھی ہوئی، جبکہ جسٹس منیب اختر نے سوال کرنے سے روکنے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ فل کورٹ بینچ کا حصہ ہونے کے ناطے؟ سوال کرنا انکا حق ہے،سوال سے روکا جائے گا تو یہاں بیٹھنے کا فائدہ؟، جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا آپ سوال کر سکتے ہیں لیکن وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں، کسی نے ذہن پہلے ہی بنا لیا ہے تو فیصلے میں لکھ دے گا، آپ پہلے دلائل مکمل کر لیں پھر تمام سوالوں کے جواب دیں،جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا سوال پہلے سے ذہن بنانے کا نہیں، بنچ کا حصہ ہوںسوال کرنے حق کا ہے، افسوس میرے ہر سوال میں مداخلت کی جاتی ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا ایکٹ کو عدالت عظمیٰ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل فل کورٹ بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی۔ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری موکل جماعت ،ایم کیو ایم اس کیس میں فریق نہیں ہے اور میں عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا ہوں،سوال ہوا ہے کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتے ہیں عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دونگاان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں۔ جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل 191 میں "لا" کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے۔ فیصل صدیقی نے مزید کہا کہ کنفیوژن ہے کہ آرٹیکل 191 میں لا کے لفظ کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ سے سپریم کورٹ رولز میں ردو بدل ہے یا نہیں۔آرٹیکل 191 میں لفظ "لا" کا مطلب ہے کہ وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے ،سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر لا کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے بھی یہی لکھا ہوتا۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔ چیف جسٹس نے دوران دلائل ایم کیو ایم کے وکیل سے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نا دیں مسٹر صدیقی، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔ وکیل کے مسکرانے پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں ہے 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیسز التوا کا شکار ہو رہے ہیں۔ فیصل صدیقی نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ رولز میں لا کی تعریف لکھی ہے سپریم کورٹ رولز بناتے وقت اس بات پر کوئی ابہام نہیں تھا کہ لا کا کیا مطلب ہے۔،دوران سماعت ایم کیو ایم نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی حمایت کرتے ہوئے ایم کیو ایم وکیل نے ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کرنے کی بھی استدعا کردی۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ ایکٹ کیخلاف درخواستیں قابل سماعت ہیں مگر میرٹ پر خارج کی جائیں۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ صرف یہ بتا دیں کہ آرٹیکل 191 میں لا کا کیا مطلب ہے۔ وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو اور لا کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں،جسٹس اعجازالااحسن نے کہا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی ہے،کیا یہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں؟جس پر وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی ہے جو سپریم کورٹ کو اپنے رولز بنانے سے روکے،جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ کیا لیجسلیٹیو اینٹریز پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ پر سپروائزری کا اختیار دیتی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہایہ اہم سوال ہے جسکو آگے بڑھانا چاہتا ہوں،اگر آرٹیکل 191 کو لیجسلیٹیو اینٹری 58 کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا،بیرسٹر صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے، وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے،جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟وکیل فیصل صدیقی کی جانب جسٹس جمال خان مندو خیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی کے لکھے گئے نوٹ کا حوالہ بھی دیا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ رجسڑار کے اعتراضات انتظامی حکم ہے جسکی انتظامی اپیل ہوتی ہے۔ فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی ہے، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کر سکتی ہے،جسٹس اعجاز لااحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی ہے،فاضل وکیل نے کہا کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں کے ساتھ ملا کر بتائوں گا کہ پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی ہے، انہوںنے کہاکہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے،جسٹس اعجازااحسن نے کہاسپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا؟جس پر فاضل وکیل نے کہاپارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار ات کی بھی حدود ہیں،انہوںنے کہاکہ آئین کے آرٹیکل184(3) کے فیصلوں پر اپیل کا حق دینے سے سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم نہیں بڑھاتی ہے۔

Post a Comment

0 Comments